یہ وقت گزر جائے گا اور کبھی واپس نہیں آئے گا۔۔۔عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دکھ بھرا یہ احساس انسان کے اندر سر اٹھانے لگتا ہے۔ گزری زندگی کے خاص لمحوں کو یاد کرتے ہوئے اسے یہ زندگی ہی کم محسوس ہوتی ہے، ایک رنج اور کسک کا احساس جیسے کچھ ادھورا رہ گیا ہو، اُن لمحوں کو واپس لانے، ان میں دوبارہ جینے کی خواہش ابھرنے لگتی ہے۔
ذاتی تجربے سے بات کروں تو آپ چاہ کر بھی یہ احساس دبا نہیں سکتے۔ اور اس احساس کی وجہ یہ نہیں کہ آپ ماضی میں کچھ کرنا چاہتے تھے جو نہیں لے سکے۔ کوئی فیصلہ لینا چاہتے تھے جو نہیں لے سکے۔ کامیاب ہونا چاہتے تھے نہیں ہو سکے۔
یہ احساس بذاتِ خود زندگی کے گزر جانے کا دکھ ہے۔ جب ہم یہ سوچیں کہ ہم پیدا ہوئے، جوان ہوئے، بوڑھے ہو رہے ہیں اور بالاخر ایک دن مر جائیں گی۔۔۔کیوں؟ میں تو ابھی اس دنیا میں آیا ہی تھا۔ ابھی تو زندگی کی نئی کھڑکیاں کھلنے ہی لگی تھیں، ابھی زندگی کو سمجھنے ہی لگا تھا کہ یہ ختم کی جا رہی ہے۔ مجھے یہاں آنے کا مقصد تو کسی نے بتایا ہی نہیں تو کیونکر مجھے واپس بھی بھیج دیا جائے گا۔
شاید یہی دکھ لے کر کئی صدیوں پہلے ہندوستان کے کسی گاؤں میں بیٹھے کسی سیانے کے پاس گیا ہو گا۔ اُسے اپنا دکھ بتایا ہو گا اور پوچھا ہو گا کہ جو ایک بار چلا جائے وہ کیونکر واپس نہیں آ سکتا۔۔۔چاہے وہ وقت ہو یا انسان۔
تب، اس سیانے نے اسے بتایا ہو گا کہ گھبراؤ نہیں، تمہاری زندگی یہاں ختم ہو جائے گی۔۔۔مگر تم نہیں۔ تم دوبارہ واپس آؤ گے، کسی اور رنگ میں کسی اور روپ میں، زندگی کو ایک مرتبہ پھر سے سمجھنے کے لیے۔
مگر حقیقت تو وہ سیانا ہی جانتا تھا کہ اِس نے اُس دکھ سے بھرے شخص کو محض ایک تسلی ہی دی ہے، ایک جھوٹی تسلی۔ اسے ایک امید دلانے کے لیے، دکھ کی اذیت سے اسے نکالنے کے لیے۔ اور یہی سے شروع ہوا ہو گا ہندو مت میں پُنر جنم کا نظریہ۔ جب دکھ سے بھرا وہ شخص گاؤں میں خوشی سے چھلانگیں لگاتا ہوا بھاگ رہا ہو گا کہ سُن لو، ہم مریں گے نہیں، واپس آئیں گے۔